ہر ماہ توحید و رسالت سے مزین مشہور عالم کتاب کشف المحجوب سبقاً حضرت حکیم صاحب مدظلہٗ پڑھاتے ہیں اور مراقبہ بھی کرواتے ہیں۔قارئین کی کثیرتعداد اس محفل میں شرکت کرتی ہے۔ تقریباًدو گھنٹے کے اس درس کا خلاصہ پیش خدمت ہے۔
حلقہ کشف المحجوب کے اس باب میں پیر علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ ہمیں تصوف کی آگاہی دے رہے ہیں‘ اس کا خلاصہ یہ ہے :یاد رکھو! اگر تجھ سے کوئی پوچھے تصوف کسے کہتے ہیں؟آنکھیں بند کر اور آنکھیں بند کر کے کہہ دے ،دائیں ہاتھ میں قرآن ہے اور بائیں ہاتھ میں حدیث ہے ،اس کا نام تصوف ہے۔ تصوف گانے بجانے کا نام ہے نہ ہی رقص و سرور کا نام ہے۔ وہ تصوف نہیں ہے، وہ شیطانیت ہے۔ پیر علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کی یہ کتاب (کشف المحجوب) میرے سامنے پڑی ہے۔ کشف المحجوب کے اندر سارا کا سارا تصوف ہے اور وہ تصوف ہے جو میرے اللہ اور اسکے حبیب رسول اللہ ﷺکا پسندیدہ تصوف ہے۔ یقین جانئے میں بعض اوقات حیران ہوتا ہوں، حضرت علی ہجویری رحمتہ اللہ علیہ کی زندگی پر قربان جاؤں کہ ایک ہزار بلکہ تقریباََ پونے گیارہ سو سال پہلے آپ نے یہ کتاب لکھی۔ ہزاروں لاکھوں کتابیں اس دور میں لکھی گئیں۔تاریخ نے کسی کتاب کو سلامت نہیں رکھا۔میں نہیں کہتا لکھنے والوں میں خلوص نہیں تھا، لیکن حضرت علی ہجویری رحمتہ اللہ علیہ المعروف داتا صاحب کی زندگی کا یہ باب، اس بات کا ثبوت ہے کہ انکی باتوں میں اتنا اخلاص اور اتنا اللہ کے ہاں سے قبولیت ہے، آج ہزار سال کے بعد تاریخیں مٹ گئیں۔ کئی تہذیبیں آئیں، ختم ہو گئیں۔ کئی بادشاہ آئے، جن کے تاج وتخت خاک میں مل گئے اور انکی قبروں کے نشان نہ رہے۔ انکے مقبرے بڑے بڑے پتھروں سے بنائے گئے تھے۔ گردشِ ایام نے انکو مٹا دیا۔ کئی لوگ آئے اور چلے گئے لیکن کشف المحجوب آج بھی میری، آپ کی آنکھوں کے سامنے پڑی ہے۔ اسکی بنیاد یہ ہے کہ کشف المحجوب میں اللہ اور اسکے رسول ﷺ کی شریعت کا لحاظ ر کھا گیا ہے۔ محمدﷺسے وفا کی گئی ہے۔ بے وفائی نہیں کی گئی۔(جاری ہے)
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں